آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین اڈیالہ جیل میں سماعت کریں گے۔ اس سے قبل 17 اکتوبر کو فردِ جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کی گئی تھی تاہم اس وقت تحریک انصاف کے وکلا کی جانب سے چالان کی کاپیاں فراہم نہ کرنے کا اعتراض اٹھایا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کے اعتراض کے بعد فردِ جرم کی تاریخ 23 اکتوبر مقرر کی گئی تھی۔
اڈیالہ جیل کے باہرسکیورٹی انتظامات:
راولپنڈی میں اڈیالہ جیل کے باہرسکیورٹی انتظامات مکمل کرلیے گئے اور پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکلا عمیرنیازی اور نیاز اللہ نیازی اڈیالہ جیل پہنچ چکے ہیں، اس کے علاوہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات بھی اڈیالہ جیل پہنچ گئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی قانونی ٹیم بھی اڈیالہ جیل پہنچ گئی، سائفر کیس کی سماعت کچھ دیر بعد اڈیالہ جیل میں شروع ہوگی۔
واضح رہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی ان دنوں سائفر کیس میں اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
سائفر معاملہ کیا ہے؟
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے امریکا میں پاکستانی سفیر کے مراسلے یا سائفرکو بنیاد بنا کر ہی اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا تھا جس میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکا کا ہاتھ ہے تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر کو لے کر پی ٹی آئی حکومت کے مؤقف کی تردید کی جاچکی ہے۔
اس کے علاوہ سائفر سے متعلق عمران خان اور ان کے سابق سیکرٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک سامنے آئی تھی جس میں عمران خان کو کہتے سنا گیا تھا کہ ’اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکا کا نام نہیں لینا، بس صرف یہ کھیلنا ہے کہ اس کے اوپر کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں‘۔
اس کے بعد وفاقی کابینہ نے اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کیا تھا۔
اعظم خان پی ٹی آئی کے دوران حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری تھے اور وہ وزیراعظم کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔
سائفر کے حوالے سے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا تھا سائفر پر ڈرامائی انداز میں بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی اور افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا تھا۔
0 Comments